حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، اس 24 منٹ کی دستاویزی فلم میں بنیادی غلطی یہ ہے کہ یہ ایران کے متنوع اور کثیرالجہت معاشرے کو ایک ون سائیڈڈ تصویر میں پیش کرتی ہے۔ فلم میں نوجوانوں اور علماء کے درمیان تعلق کا تجزیہ کرتے وقت نہ تو نوجوانوں کے مختلف طبقات کا احاطہ کیا گیا ہے اور نہ ہی حوزہ علمیہ کے اندر موجود مختلف فکری و عملی دھاروں کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔
اس فلم میں شامل کیے گئے روحانی افراد زیادہ تر نوجوان و جوان ہیں جنہیں ہم تجربے کے لحاظ سے "ناپختہ" کہہ سکتے ہیں۔ دوسری طرف اگر دیکھا جائے تو موجودہ نسل انتہائی متنوع ہے۔ ان میں سے کچھ حوزہ علمیہ میں داخل ہوتے ہیں، کچھ یونیورسٹی جاتے ہیں، کچھ مختلف فکری رجحانات رکھتے ہیں اور کچھ مختلف معاشرتی و معاشی شعبوں میں مصروف ہیں۔ اسی طرح حوزہ علمیہ بھی ایک یکسان ادارہ نہیں بلکہ اس میں مختلف افکار و نظریات کے حامل طلباء اور علماء موجود ہیں۔
دستاویزی فلم کا ایک اور کمزور پہلو یہ ہے کہ یہ علماء اور عوام کے درمیان تعلق کے حوالے سے دو انتہائی نقطہ نظر پیش کرتی ہے۔ ایک طرف یہ دعویٰ کہ "روحانیت عوام کی زندگی میں ضرورت سے زیادہ دخیل ہے" اور دوسری طرف یہ کہ "روحانیت کا عوام سے مکمل طور پر تعلق منقطع ہو چکا ہے"۔ یہ دونوں باتیں معاشرتی حقائق کے برعکس ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ علماء و روحانیت، بالخصوص انقلابی اور امام خمینیؒ کے افکار سے وابستہ علماء، ہمیشہ سے عوام کے ساتھ رہے ہیں۔ یہی علماء معاشرے کے دکھ درد میں شریک رہتی ہیں، مختلف آسمانی آفات کے وقت متاثرین کی مدد کو پہنچتے ہیں، جہادی اور رفاہی سرگرمیوں میں پیش پیش رہتے ہیں۔ مساجد میں نوجوانوں کی بڑی تعداد کی شرکت، اعتکاف جیسے پروگراموں میں لاکھوں افراد کی موجودگی، اور مذهبی تنظیموں میں نوجوانوں کا فعال کردار اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ علماء اور عوام، خصوصاً نوجوان نسل کے درمیان بہترین تعلق موجود ہے اور یہ تعلق مسلسل فروغ پا رہا ہے۔









آپ کا تبصرہ